By: Yasin Nadir
زمان نے صبح آنکھ کھولی تو گیارہ بج رہے تھے، وہ معمول کے مطابق کل رات گھر دیر سے آیا تھا، کیونکہ انکا ایک ٹھکانہ تھا جہاں پر وہ اپنے یار، دوست کے ساتھ رات دیر تک بیٹھے رہتے اور مختلف دلچسپ موضوعات پر باتیں کرتے۔ شاید آپکو عجیب لگے لیکن انکا ٹھکانہ قبرستان میں واقع تھا، وہ ہر رات دیر تک قبروں پر بیٹھتے تھے، قبرستان کوہ مردار کے دامن میں واقع ہے، جہاں اکثر رات کو جوان لڑکے دوستوں کے ساتھ یا تو گھر والوں سے چھپکے سیگریٹ پینے آتے ہیں، یا پھر کسی اور اہتمام کے لیے جو وہ آبادی کے درمیان میں رہ کر انجام نہیں دے سکتے۔
زمان تقریبا روزانہ صبح دیر سے اٹھتا، اس کا ماننا تھا کہ جب کوئی کام ہی کرنے کو نہیں تو بندہ کونسی تیر مارنے کے لیے جلدی اٹھے۔ وہ والدہ کو ناشتے کے لیے تنگ نہیں کرنا چاہتا تھا اس لیے روزانہ دیر سے اٹھ کر سخی داد کے ہوٹل پر ناشتہ کرنے جاتا، جہاں اسے اپنی طرح کے اور بھی ہم خیال دوست میسر آتے جن کے ساتھ وہ دوپہر کے کھانے تک بیٹھ کر وقفے وقفے سے چاے پیتا اور مختلف موضوعات پر باتیں کرتا، اب بھلا شہر افسوس میں رہنے والوں کی موضوعات اور کیا ہو سکتی تھیں، انکے موضوعات بھی اکثر کوئٹہ کے حالات پر مبنی ہوتے۔ کسی نے فلاں دھماکے کا واقع سنایا تو کسی نے فلاں کے گھر کی تباہی کا قصہ سنایا کہ کس طرح سے فلاں کی ماں اپنے بیٹے کی مرگ کے بعد نیم پاگل ہوگئی، کیسے فلاں کے والد نے بیٹھے کے غم میں مذہب کا سہارا لیا تھا، اور ہمیشہ یہ سوچ کر خوش رہنے کی کوشش کرتا کہ میرا بیٹا تو شہید ہے، شہید تو زندہ ہے اور زندہ لوگوں پر نہیں رویا کرتے لیکن پھر ایک دن کسی محفل میں اسکے بیٹے کا ذکر آیا تو وہ کیسے گھنٹوں اپنا گریہ نہیں روک پایا تھا۔
زمان دوپہر کے کھانے کے وقت گھر آتا اور امی کے ساتھ دسترخوان بچھا کر ایک ساتھ کھانہ کھاتے، زمان کے گھر میں اسکی ماں تھی، بڑی بہن کی شادی ہوگئی تھی جسکا گھر قریب ہی تھا اور وہ دن میں ایک بار ماں کے پاس چکر لگاتی، زمان کا والد اور بھائی مارکیٹ والی دکان بیچ کر غیر قانونی رستے سے یورپ گئے تھے جہاں وہ کسی کارخانے میں مزدوری کر کے اپنا گھر چلاتے۔ والد اور بھائی نے زمان کو جانے سے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ جب تک ہم سب کو باہر نہ بلوائیں گھرکے کاموں کی ذمہ داری تمہاری ہے، لیکن زمان اس میں تھوڑی سستی کا مظاہر کرتا، اکثر وقت گھر سے باہر ہوتا لیکن ماں جب گھر بلاتی فورا دستوں کی محفل چھوڑ کر ماں کے پاس پہنچ جاتا اور جس بھی غرص سے ماں نے بلایا ہے زمان وہ کام جلدی سے پہلے ہی کر ڈالتا۔
ایک رات زمان قبرستان میں اپنے دوستوں کے درمیان خاموش بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا، اسے خاموش دیکھ کر دوست نے پوچھا کہ کیا سوچ رہے ہو، کشتی ڈھوب گئ کیا؟ زمان دوست کی طرف دیکھتے ہوۓ گویا ہوا، یار یہی سوچ رہا ہوں کہ کونسی گناہ کی تھی جو آج یہ قبرستان ہماری تفریح گاہ بن گئی ہے، شاید ہزارہ ہونا یا کوئٹہ میں پیدا ہونا ہی سب سے بڑی گناہ ہے، اگر کسی اور ملک میں پیدا ہوتے تو اور نہ صحیح رات کے اس پہر کوئی مے خانہ ہی کھلا ملتا جہاں ہم بیٹھ کر اپنے غموں پر کچھ تو مرہم رکھ لیتے، دوست نے مسکرا کر کہا، پھر تو ہمیں مے خانے کی بھی ضرورت نہ پڑتی، کافروں کے ملک میں نسل، رنگ، قوم اور فرقے کی تھوڑی اتنی اہمیت ہوتی ہے کہ جس کی بنیاد پر لوگوں سے انکی آزادی چھینی جاے، انکو ہمیشہ خوف میں رکھا جاۓ۔ زمان نے نفی میں سر ہلایا۔
پاس بیٹھے دوسرے دوست نے کہا، بھئی یہ بھی تو انکی کرم فرمائی ہے کہ کم سے کم اس قبرستان اور پہاڑوں کو ہم پر بند نہیں کیا، ورنہ یہ کام بھی تو ہمارے محافظین بخوبی کر سکتے ہیں۔ زمان نے گہرے انداز میں آہ بھری اور دوست سے ناشاناس کا کوئی گانا لگانے کی فرمائش کی، خاموشی کا چادر اوڑھے سارے دوست دیر تک بیٹھے رہے، گلوکار کی آواز رات کے اس پہر دوستوں کی محفل پر چھائی رہی اور دو بجے کے قریب سب اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوۓ۔ زمان کو صبح اپنی والدہ کا پاسپورٹ رینیو کرانے, والدہ کو لے کر پاسپورٹ آفس جانا تھا، صبح والدہ نے اسے جلدی جگایا، نہا دھو کر، ناشتہ کرکے وہ ماں کے ساتھ رکشے میں روانہ ہوئی، علمدار روڈ سے ہوتے ہوۓ وہ مشن روڈ کے راستے جب جناح روڈ سے گزر رہے تھے تو اسے یک دم اجنبیت کا احساس ہوا، یہ شاید اس وجہ سے, کیونکہ وہ مہنیوں بعد اپنے علاقے سے کسی ضروری کام کے لیے نکل رہا تھا، لیکن بات صرف یہی نہیں تھی، جن لوگوں کو زمان اپنی رکشے میں گزرتے ہوۓ دیکھ رہا تھا، وہ سارے گہری اجنبیت کا احساس دے رہے تھے۔